واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ محمد باباسماسی

رحمتہ اللہ علیہ

شہر بخارا سے نو میل کے فاصلہ پر واقع قریہ سماس میں آپ کی ولادت ۲۵ رجب ۵۹۱ ہجری کو ہوئی۔ اسی لیے آپ کو سماسی کہا جاتا ہے۔ جذبات و وارادت کا آپ پر غلبہ رہتا تھا۔ حضرت عزیزان علی رامیتنی رحمتہ اللہ علیہ کے اکابر خلفاء میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت عزیزان علی رامیتنی نے رحلت کے وقت آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور اپنے تمام مریدین کو آپ کی ارادت کا امر فرمایا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حضرت شاہ نقشبند   رحمتہ  اللہ  علیہ  کی جائے ولادت قصر ہندوان جو کہ بخارا سے تین میل کی فاصلہ پر ہے، سے گذرتے ہوئے فرماتے تھے ”زود باشد کہ ایں قصر ہندواں قصر عارفاں گردد“ عنقریب یہ جگہ قصر ہندواں سے بدل کر قصر عارفاں بن جائے گی۔ چنانچہ جب حضرت شاہ نقشبند   رحمتہ  اللہ  علیہ  کی ولادت ہوئی اور آپ کے جد امجد آپ کو دعائے برکت کے لیے حضرت بابا سماسی کے پاس لائے تو حضرت بابا سماسی نے حضرت شاہ نقشبند کو اپنی فرزندی میں قبول فرمایا اور انکے متعلق ارشاد فرمایا یہ لڑکا عنقریب اپنے وقت کا امام مقتدیٰ بنے گا۔

حضرت خواجہ نقشبند فرماتے ہیں کہ جب میری عمر ۱۸ سال ہوئی اور میری شادی کا پروگرام بنا تو میں حضرت بابا سماسی   رحمتہ  اللہ  علیہ  کی خدمت میں دعوت لیکر حاضر ہوا۔ حضور کی صحبت کی برکت سے اس رات مجھ پر گریہ زاری کا غلبہ ہوا۔ صبح کو لنگر کھانے کے بعد آپ نے مجھے ایک روٹی ساتھ لے چلنے کو کہا، میں نے ہچکچاہٹ محسوس کی تو فرمایا رکھ لو کام آئیگی۔ چنانچہ حضور میرے ساتھ روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک مخلص ملا۔ نہایت درجہ خوش ہوا اور آپ کو دعوت دے کر گھر لے گیا۔ اس کو بے چین دیکھ کر حضور نے فرمایا سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے۔ کہنے لگا حضور گھر میں پنیر تو موجود ہے مگر روٹی موجود نہیں ہے۔ آپ نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا وہ روٹی نکالو تم نے دیکھا آخر وہ روٹی کام آہی گئی۔

آخر عمر میں حضرت بابا سماسی   رحمتہ  اللہ  علیہ  نے بطور خاص اپنے خلیفہ نائب حضرت امیر کلال علیہ الرحمۃ سے فرمایا تھا ”تم میرے اس فرزند بہاؤالدین کے حق میں تربیت و شفقت میں ہرگز کوتاہی نہ کرنا“ چنانچہ حضرت امیر کلال نے آپکی عمدہ تربیت کی اور الحمدللہ آپ کی یہ پیشنگوئی سو فیصد درست ثابت ہوئی اور قصر عارفاں بخارا سے نقشبندی فیض دنیا بھر میں پھیلا اور پھیل رہا ہے۔

آپ ۱۰ جمادی الآخر ۷۵۵ ہجری میں اس دار فانی سے رخصت  ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار پرانوار بھی قریہ سماس میں زیارت گاہ خاص و عام ہے